Posts

"صلو وچ" بنام "سرجی"

 چند دن قبل ایک نام نہاد صحافی سہیل وڑائچ نے ایک کالم لکھا جو کہ الطاف حسین کے عمران خان کے نام ایک فرضی خط پر مشتمل تھا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر الطاف حسین کو عمران خان کے نام کو خط لکھنا ہوتا تو وہ خود لکھتے۔ کسی اور کو کیا حق پہنچتا ہے کہ وہ الطاف حسین کی جانب سے ان کی اجازت کے بغیر خود اپنی سوچ کے مطابق باتیں لکھے؟ پاکستان میں شاید یہ صحافت کہلاتی ہو لیکن ایک مہذب معاشرے میں یہ ایک گری ہوئی حرکت سمجھی جاتی ہے۔ اگرچہ کافی لوگوں نے سہیل وڑائچ کی توجہ اس جانب مبذول کرائی اور تنقید بھی کی، لیکن نہ تو انہوں نے اپنے اس عمل پر معذرت کی اور نہ ہی کالم کو ڈیلیٹ کیا۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اپنے اس عمل سے مطمئن ہیں۔ جب ایسا ہے تو اس فرضی خط کی طرز پر، ان کا بھی ایک خط حاضر ہے جو یقینا ان کے اطمینان میں اضافے کا باعث بنے گا۔ "صلو وچ" بنام "سرجی" سلام سر جی! اب تو یقینا آپ خوش ہوں گے کہ میں نے آپ کا بھیجا ہوا ڈاکومنٹ جیسا ریسیو کیا، ویسے ہی "لندنی بھائی بنام اڈیالہ بھائی" کے عنوان سے میڈیا پر شیئر کر دیا۔ میں نے ہمیشہ آپ کا دیا ہوا ہر اسائنمنٹ وقت پر اور آ...

مہاجروں کے لیے لمحہ فکریہ

  مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے حقائق یہ واضح کرتے ہیں کہ مغربی پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ بنگالیوں کے خلاف نسلی تعصب رکھتی تھی اور انہیں ملک کے مساوی شہری تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں تھی۔ بنگالی مسلمانوں کے خلاف فوجی آپریشن اور بڑے پیمانے پر قتل عام اسی نفرت کا نتیجہ تھے۔ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ مغربی پاکستان کے عوام کی مجرمانہ خاموشی نے بنگالیوں کو دیوار سے لگا دیا اور انہیں اپنی نسل کشی سے نجات حاصل کرنے کے لیے بھارت سے مدد مانگنے کے سوا کوئی راستہ نظر نہیں آیا۔ شہری سندھ، خاص طور پر کراچی میں جو کچھ ہو رہا ہے، اسے دیکھتے ہوئے کیا یہ محسوس نہیں ہوتا کہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ وہی پالیسی مہاجرین اور ایم کیو ایم کے خلاف اپنا رہی ہے جو اس نے 1971 میں بنگالی مسلمانوں کے خلاف اپنائی تھی؟ یہ ذکر کرنا بے جا نہیں ہوگا کہ الطاف حسین نے ایم کیو ایم کی بنیاد اردو بولنے والی کمیونٹی کے ساتھ کئی دہائیوں سے جاری عدم مساوات اور ناانصافی کے خلاف آواز بلند کرنے کے لیے رکھی تھی۔ انہوں نے دوسرے پاکستانیوں کی طرح انصاف اور مساوی حقوق کا مطالبہ کیا۔ تاہم، مہاجروں کی شکایات کا ازالہ کرنے کے بجائے، ریاست نے اسپان...

اپنے حلف کی خلاف ورزی اور عہدے کا ناجائز استعمال کی لت

 پاکستانی میڈیا کے مطابق جنرل فیض حمید کے خلاف سیاسی سرگرمیوں میں ملوث ہونے، آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزی جیسے ریاست کو نقصان پہنچانے کے اقدامات، اختیارات اور سرکاری وسائل کے غلط استعمال کے الزامات کے تحت کارروائی ہو رہی ہے۔ آئی ایس پی آر کے بیان کے مطابق، لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کے بدامنی پیدا کرنے سے متعلق واقعات میں اس پہلو پر بھی تحقیقات ہو رہی ہیں کہ یہ ذاتی سیاسی مفاد پر کیے گئے تھے یا اس میں کوئی ملی بھگت بھی شامل تھی۔ اصولی طور پر فوجی افسران سیاست میں ملوث نہیں ہو سکتے۔ اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو وہ نہ صرف آئین پاکستان بلکہ خود اپنے حلف کی خلاف ورزی کا مرتکب ہوتا ہے۔ اس لیے اگر فیض حمید کے خلاف تحقیقات اور جرم ثابت ہونے پر کارروائی ہوتی ہے تو یہ ایک اچھا عمل ہے۔     لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا فیض حمید وہ واحد فوجی جنرل تھے جنہوں نے سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لیا اور مخصوص مفادات کے حصول کے لیے اپنے اختیارات اور ریاستی وسائل کا ناجائز استعمال کیا؟ کیا اس سے پہلے کبھی ایسا نہیں ہوا؟ اس سوال کے جواب سے پاکستانی سیاست پر نظر رکھنے والا ہر شخص بخوبی واقف ہ...

"مردہ باد" کا نعرہ اور حقائق سے چشم پوشی

پچھلے کئی سالوں کی طرح، اس سال بھی 9 دسمبر 2024 کو حکومتِ پاکستان اور اس کے ریاستی اداروں نے عزیزآباد میں واقع یادگار شہداء اور یاسین آباد قبرستان کے پاس رکاوٹیں کھڑی کر کے تمام راستوں کو بند کر دیا تھا تاکہ وہاں عوام پہنچ کر فاتحہ خوانی نہ کر سکیں۔ اس سلسلے میں کافی لوگوں کو گرفتار بھی کیا گیا۔ ان تمام کارروائیوں کی بنیاد الطاف حسین کی 22 اگست 2016 کی تقریر کو بنایا جاتا ہے۔  22 اگست 2016 سے ایم کیو ایم کے خلاف ایک نیا آپریشن شروع کیا گیا۔ اس میں اس کے بانی و قائد الطاف حسین کے نام، تقریر و تصویر پر پابندی لگا دی گئی، مرکزی دفتر المعروف نائن زیرو کو سیل کر دیا گیا، اور اس کی تمام سیاسی سرگرمیوں پر پابندی عائد کر دی گئی۔ چھاپے، گرفتاریاں، کارکنوں کی جبری گمشدگی، ماورائے عدالت قتل ہوئے، اور اس کے علاوہ پاکستان میں موجود دیگر عہدیداروں کو گن پوائنٹ پر اپنے قائد سے لاتعلقی کا اعلان کروا کر علیحدہ علیحدہ دھڑے بنوائے گئے۔ وجہ الطاف حسین کے "مردہ باد" کے نعرے کو بتایا گیا۔ اگر واقعی "مردہ باد" کا نعرہ ہی اصل وجہ تھی، تو 19 جون 1992 سے لے کر 21 اگست 2016 تک الطاف حسین کی ج...

مظہر عباس, سیاسی روبوٹس اور ان کا ریموٹ کنٹرول

چند روز پہلے معروف کالم نگار جناب مظہر عباس صاحب نے روزنامہ جنگ اخبار میں ایک کالم تحریر کیا جس میں انہوں نے بظاہر تو حالیہ 26ویں آئینی ترمیم پر بات کی، لیکن ان کی اصل توجہ ایم کیو ایم پاکستان کی سیاسی و عسکری مجبوریوں پر مرکوز رہی۔ ان کے مطابق، ایم کیو ایم پاکستان نے اپنی مرضی سے نہیں بلکہ “کسی” کی ہدایت پر، ریموٹ کنٹرول کے تحت چلنے والے ایک روبوٹ کی طرح عمل کرتے ہوئے 26ویں آئینی ترمیم کی حمایت کی۔(ویسے یہ بات ایک کھلا راز ہے، جس کا علم پاکستان کی سیاست پر نظر رکھنے والے تقریباً ہر شخص کو ہوگ) ۔ ذرا تصور کریں کہ تقریباً 25 کروڑ آبادی رکھنے والے اور ایٹمی صلاحیت کے حامل ایک ملک کی پارلیمنٹ میں آئینی ترامیم، یعنی قانون سازی، ریموٹ کنٹرول کے اشارے پر کی جاتی ہے, ملکی منتخب سیاسی و مذہبی جماعتوں کو ایک روبوٹ کی طرح کنٹرول کیا جاتا ہے۔ اور ظاہر ہے یہ پہلی دفعہ ایسا نہیں ہوا۔ قائداعظم، لیاقت علی خان، اور خاص طور پر فاطمہ جناح کے انتقال کے بعد سے یہ سلسلہ مسلسل جاری ہے۔ عدلیہ بحالی تحریک کے دوران، تمام وکلاء اور جج صاحبان نے یہ کہہ کر تحریک چلائی کہ "عدلیہ 60 سال سے غلام بنی ہوئی ہے۔...

الطاف حسین - بس کا آخری مسافر

  آپ نے ایک کہانی تو سن رکھی ہوگی جس کے مطابق ایک بس مسافروں کو لے کر ایک شہر سے دوسرے شہر کی جانب سفر کر رہی ہوتی ہے۔ موسم انتہائی خراب ہوتا ہے، تیز بارش ہو رہی ہوتی ہے، بجلی نہ صرف کڑک رہی ہوتی ہے بلکہ کہیں کہیں گر بھی رہی ہوتی ہے۔ بس کا ڈرائیور خراب موسم دیکھ کر بس کو ایک جانب کھڑی کر دیتا ہے اور انتظار کرتا ہے کہ موسم ذرا بہتر ہو تو سفر دوبارہ شروع کرے۔ لیکن صاحب، بجلی تھی کہ نہ صرف کڑک رہی تھی بلکہ دھماکے کے ساتھ گر بھی رہی تھی، وہ بھی بس کے آس پاس، کبھی دائیں تو کبھی بائیں، کبھی آگے تو کبھی پیچھے۔ ایسا لگ رہا تھا کہ بجلی اپنے کسی شکار کو تلاش کر رہی ہو۔ اس صورتحال نے بس کے مسافروں کو خوفزدہ کر دیا تھا۔ یہ تمام صورتحال دیکھ کر بس میں ایک صاحب نے کہا، "مجھے لگتا ہے کہ ہم میں سے کوئی ایسا گنہگار شخص موجود ہے جس سے اللہ سخت ناراض ہے، جس کی بنا پر بجلی بار بار ہمارے قریب گر کر ہمیں کوئی اشارہ دے رہی ہے کہ ہم اسے اپنے سے دور کر دیں۔ اگر ہم ایسا نہیں کرتے تو اس شخص کے ساتھ ساتھ ہم بھی اس عذاب کا شکار ہو جائیں گے۔" "تو ایک شخص کی خاطر ہم سب کی جانیں خطرے میں کیوں ڈالیں؟...

"ہمیں منزل نہیں رہنما چاہیے"

ایم کیو ایم کے مخالفین، بشمول کچھ نام نہاد "دانشور"، ہمیشہ اس نعرے پر تنقید کرتے رہے ہیں۔ وہ اسے غیر منطقی قرار دیتے اور اس کا مذاق اڑاتے ہیں: ان کے مطابق "عوام اپنے رہنما کا انتخاب اور اس کے پیچھے اس لیے چلتے ہیں کہ وہ  رہنما چاہیے" انہیں منزل تک پہنچائے، مگر جب کوئی منزل ہی نہیں تو رہنما کی اہمیت کیا ہے؟" یہ ایک عام بات ہے کہ ہر معاشرے میں کئی شخصیات ایسی ہوتی ہیں جن کو لوگ اپنے سیاسی، مذہبی، مسلکی یا کسی اجتماعی مقصد کے حصول کے لیے اپنا رہنما سمجھتے ہیں اور ان کی پیروی کرتے ہیں، مگر ہر لیڈر میں انقلابی خصوصیات نہیں ہوتیں اور جن میں ہوتی ہیں وہ اپنے پیروکاروں کے لیے نہایت اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ اگر ہم پاکستان کی بات کریں تو کیا کوئی اور ایسی شخصیت نظر آتی ہے جس میں اتنی کشش ہو کہ ہزاروں، بلکہ لاکھوں لوگ ان کی ایک فون کال سننے کے لیے جمع ہو جائیں؟ اصولی طور پر پاکستان میں تو اصل سیاست ملک پر قابض طاقتور قوتوں کے خلاف ہونی چاہیے، ورنہ وہ سیاست نہیں بلکہ فکس یا فرینڈلی میچ ہی ہوگا، جو کہ کئی دہائیوں سے پہلے ہی جاری ہے۔         الطاف حسین کی سیاست شروع ...