"صلو وچ" بنام "سرجی"

 چند دن قبل ایک نام نہاد صحافی سہیل وڑائچ نے ایک کالم لکھا جو کہ الطاف حسین کے عمران خان کے نام ایک فرضی خط پر مشتمل تھا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر الطاف حسین کو عمران خان کے نام کو خط لکھنا ہوتا تو وہ خود لکھتے۔ کسی اور کو کیا حق پہنچتا ہے کہ وہ الطاف حسین کی جانب سے ان کی اجازت کے بغیر خود اپنی سوچ کے مطابق باتیں لکھے؟ پاکستان میں شاید یہ صحافت کہلاتی ہو لیکن ایک مہذب معاشرے میں یہ ایک گری ہوئی حرکت سمجھی جاتی ہے۔

اگرچہ کافی لوگوں نے سہیل وڑائچ کی توجہ اس جانب مبذول کرائی اور تنقید بھی کی، لیکن نہ تو انہوں نے اپنے اس عمل پر معذرت کی اور نہ ہی کالم کو ڈیلیٹ کیا۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اپنے اس عمل سے مطمئن ہیں۔

جب ایسا ہے تو اس فرضی خط کی طرز پر، ان کا بھی ایک خط حاضر ہے جو یقینا ان کے اطمینان میں اضافے کا باعث بنے گا۔

"صلو وچ" بنام "سرجی"

سلام سر جی!

اب تو یقینا آپ خوش ہوں گے کہ میں نے آپ کا بھیجا ہوا ڈاکومنٹ جیسا ریسیو کیا، ویسے ہی "لندنی بھائی بنام اڈیالہ بھائی" کے عنوان سے میڈیا پر شیئر کر دیا۔

میں نے ہمیشہ آپ کا دیا ہوا ہر اسائنمنٹ وقت پر اور آپ کی ہدایت کے مطابق مکمل کیا۔

لیکن سر!

ایک کراچی کا الطاف حسین کیا کم تھا کہ جس نے 40 سال سے ہماری ناک میں دم کر رکھا تھا اور ہمارے ہاتھ نہیں آ رہا تھا، اب ایک عمران خان اور آ گیا۔

عمران خان تو اچھا خاصا ساتھ صحیح چل رہا تھا، فضول میں "بلنٹ" ہو گیا۔

خیر، عمران تو قابو میں آ ہی جائے گا لیکن اس کے حامی بہت بے قابو ہو رہے ہیں، ان کا کچھ نہ کچھ تو کرنا پڑے گا۔

ویسے سر جی، آپ فکر نہ کریں،

ہماری کوششیں جاری ہیں۔ ہماری پوری ٹیم ان شر پسندوں کو کاؤنٹر کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہم نے پچھلے تقریباً 35، 40 سالوں سے آپ کی انسٹرکشن اور ڈائریکشن کے تحت الطاف حسین کو پاکستانی سیاست میں آگے بڑھنے سے روکے رکھا ہوا ہے۔ ان کے ہر پولیٹیکل موو کو آپ کی لاجسٹیکل سپورٹ سے کاؤنٹر کیا اور ابھی تک کر رہے ہیں۔

جب ہم ایم کیو ایم کو روک سکتے ہیں تو پی ٹی آئی کیا چیز ہے؟

لیکن اگر ان لوگوں کو پیار کی زبان سمجھ میں نہیں آ رہی ہے تو بھاڑ میں جائیں یہ لوگ!

ہمارے اپنے اسٹریٹجک ایسٹس کس دن کام آئیں گے؟ اے پی ایس کی طرح دو تین جابز ڈن کروا دیں تو لگ پتہ جائے گا ان کو۔

لیکن سر جی،

ایک بات ہے: 8 فروری 2024 کے عام انتخابات میں الطاف حسین کی اپیل پر جس طرح کراچی اور حیدرآباد کے لوگ ووٹ ڈالنے کے لیے نکلے، وہ انتہائی پریشان کن تھا۔

ہمیں سندھ کے شہری علاقوں سے جو رپورٹس مل رہی تھیں، اس سے تو ایسا لگ رہا تھا کہ لوگ شاید 1988 اور 1990 انتخابات کا بھی ریکارڈ توڑ دیں گے۔

سچی بات ہے، مجھے تو ایسا لگا کہ شاید اب ہماری گل ہی مک گئی اور سندھ کے شہری علاقے ہمارے ہاتھ سے نکل جائیں گے۔

لیکن جس طرح آپ لوگوں نے ان ٹائم مداخلت کی اور الطاف حسین کے امیدواروں کے حق میں ڈالے گئے ووٹوں کی کاؤنٹنگ رکوائی، وہی ٹرننگ پوائنٹ تھا۔

ورنہ تو ہم گئے تھے سر۔

اس لیے سر جی، ایک ریکویسٹ ہے۔

ویسے تو اربن سندھ میں ہم نے ہر جگہ اپنی فیلڈنگ سیٹ کی ہوئی ہے۔

سیاست سے لے کر عدلیہ اور میڈیا سے لے کر مسجد تک، ہر جگہ اپنے ہی "بندے" تعینات ہیں۔

لیکن سر، پھر بھی آپ الطاف حسین کو کوئی بھی ایسا موقع نہ دیں کہ وہ اپنی عوامی مقبولیت ثابت کر جائے، ورنہ صورتحال پلٹنے میں وہ ذرا بھی وقت نہیں لگائے گا اور ہمارا سارا بیانیہ تباہ ہو جائے گا۔

بڑا خطرناک آدمی ہے سر وہ۔

سر ایک بات اور:

ویسے تو آپ ہم سے بہت بہتر سوچتے اور سمجھتے ہیں، لیکن صرف ایک گزارش کرنی تھی کہ شہری سندھ، بلوچستان اور کے پی کے کی صورتحال جس طرف جا رہی ہے، آنے والے دنوں میں ہمارے لیے زیادہ مشکلات ثابت ہو سکتی ہیں۔

ہمارے ابا کو ڈھاکہ کی ساری باتیں یاد تھیں۔

سن 71 میں وہ ڈھاکہ میں ہی تھے۔ بڑی مشکل سے نکلے تھے تیجگاؤں ایئرپورٹ سے، ورنہ بعد میں انڈین ایئر فورس نے وہ بھی تباہ کر دیا تھا۔

ایک طرف بنگالی اور دوسری طرف انڈین آرمی، بڑی خوفناک صورتحال تھی سر وہاں۔ بڑی مشکل سے جان بچی ہمارے ابے کی۔

بہت کچھ سمجھایا تھا انہوں نے ہمیں اپنے اس تجربے کی روشنی میں۔

اس لیے عرض ہے کہ مجھے چینل کے ذریعے کسی بیرون ملک سیٹ کروا دیں تاکہ میں وہاں زیادہ محفوظ رہ کر آپ کے اسائنمنٹ پر توجہ دے سکوں، کیونکہ یہاں صبح کا پتہ اور نہ شام کا۔

اور ہاں،

میں آپ کے سامنے ایک بات کی وضاحت ضرور کرنا چاہوں گا۔

وہ یہ کہ کچھ مخالفین میری اور نواز شریف کی پرانی تصاویر سوشل میڈیا پر شیئر کر رہے ہیں اور یہ تاثر دینا چاہ رہے ہیں کہ میں ان کا وفادار ہوں۔

لیکن یہ بات سراسر غلط ہے۔

میں ان کا نہیں، بلکہ ہمیشہ سے آپ کا وفادار رہا ہوں اور آپ کی اسپیشل انسٹرکشن پر ہی ان کے کافی قریب گیا۔

مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ آپ ہی لوگوں نے مجھے گاؤں کے "صلو وچ" سے "صحافی سہیل وڑائچ" بنایا۔

میں آپ لوگوں سے احسان فراموشی کا سوچ بھی نہیں سکتا۔

مجھے امید ہے کہ آپ میرے موقف کو اچھی طرح سمجھ گئے ہوں گے۔

آخر میں ایک دفعہ پھر میں آپ کو اپنے تعاون اور وفاداری کا بھرپور یقین دلاتا ہوں۔

آپ کا تابعدار،

سہیل وڑائچ

Comments

Popular posts from this blog

مظہر عباس, سیاسی روبوٹس اور ان کا ریموٹ کنٹرول

"ہمیں منزل نہیں رہنما چاہیے"

"مردہ باد" کا نعرہ اور حقائق سے چشم پوشی