اپنے حلف کی خلاف ورزی اور عہدے کا ناجائز استعمال کی لت

 پاکستانی میڈیا کے مطابق جنرل فیض حمید کے خلاف سیاسی سرگرمیوں میں ملوث ہونے، آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزی جیسے ریاست کو نقصان پہنچانے کے اقدامات، اختیارات اور سرکاری وسائل کے غلط استعمال کے الزامات کے تحت کارروائی ہو رہی ہے۔

آئی ایس پی آر کے بیان کے مطابق، لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کے بدامنی پیدا کرنے سے متعلق واقعات میں اس پہلو پر بھی تحقیقات ہو رہی ہیں کہ یہ ذاتی سیاسی مفاد پر کیے گئے تھے یا اس میں کوئی ملی بھگت بھی شامل تھی۔

اصولی طور پر فوجی افسران سیاست میں ملوث نہیں ہو سکتے۔ اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو وہ نہ صرف آئین پاکستان بلکہ خود اپنے حلف کی خلاف ورزی کا مرتکب ہوتا ہے۔ اس لیے اگر فیض حمید کے خلاف تحقیقات اور جرم ثابت ہونے پر کارروائی ہوتی ہے تو یہ ایک اچھا عمل ہے۔    

لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا فیض حمید وہ واحد فوجی جنرل تھے جنہوں نے سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لیا اور مخصوص مفادات کے حصول کے لیے اپنے اختیارات اور ریاستی وسائل کا ناجائز استعمال کیا؟ کیا اس سے پہلے کبھی ایسا نہیں ہوا؟ اس سوال کے جواب سے پاکستانی سیاست پر نظر رکھنے والا ہر شخص بخوبی واقف ہے۔

جس طرح مشرقی پاکستان کی عوام 1970-71 کی سیاست میں "عسکری" سرگرمیوں سے اچھی طرح واقف تھے، بالکل اسی طرح جون 1992 سے لے کر آج تک سندھ کے شہری علاقوں میں امن و امان قائم کرنے کے نام پر جو "پنڈی مارکہ" قومی سیاسی سرگرمیاں ہوتی رہیں، اس کے نہ صرف خود عینی شاہد بلکہ متاثرہ فریق بھی ہیں۔ اسی طرح 22 اگست 2016 کے "مردہ باد" کے نعرے تک صورتحال ایسے ہی نہیں پہنچی۔ اس کا بھی پورا پس منظر تھا اور اس پس منظر کے پیچھے بھی فوجی جنرلز ہی تھے۔

اپریل 2015 میں رائٹرز نے بھی اپنی ایک رپورٹ میں کراچی کی سیاست میں "عسکری کارروائیوں" کا انکشاف کیا تھا۔

رائٹرز میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق، پاکستان کی ملٹری اسٹیبلشمنٹ نے فیصلہ کیا ہے کہ کراچی میں کسی جماعت کو حکومت نہیں کرنے دی جائے گی۔  پورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ ایم کیو ایم اور خاص طور پر جلاوطن قائد الطاف حسین کی گرفت کو کمزور کرنے سے دوسری تمام سیاسی جماعتوں (مثلاً عمران خان کی تحریک انصاف) کے لیے جگہ خالی ہو  ائے گی، جو کہ فوج سے زیادہ ہمدردی رکھتی ہیں۔

https://www.reuters.com/article/2015/04/27/us-pakistan-karachi-insight-idUSKBN0NH0WK20150427/

ویسے تو ایم کیو ایم 1984 میں اپنے قیام سے ہی مختلف سازشیں اور ان کے نتیجے میں ہونے والے آپریشنز جھیلتی رہی ہے، لیکن گزشتہ 15-16 سالوں سے کتنے ہی ایسے حالات و واقعات رونما ہوئے ہیں جن سے الطاف حسین، ان کی جماعت ایم کیو ایم اور مہاجر کمیونٹی بالواسطہ یا بلاواسطہ نشانہ بنتے رہے ہیں۔ مثلاً (الطاف حسین کے انتہائی وفادار) ڈاکٹر عمران فاروق کا قتل، 12 مئی کی خونریزی، کٹی پہاڑی اور لیاری میں مہاجروں کا قتل عام، محاصرے ، جبری گمشدگیاں اور ایم کیو ایم کے کارکنان کے ماورائے عدالت قتل وغیرہ۔ نیٹو کنٹینرز کے لاپتہ ہونے، پاکستان میں بلدیہ فیکٹری میں آتشزدگی، ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل، منی لانڈرنگ، نفرت انگیز تقاریر اور لندن پراپرٹی جیسے مختلف کیسز بھی ان واقعات میں شامل ہیں۔

مختصراً یہ کہ اگر ہم ان تمام واقعات کی نوعیت اور ان کے تسلسل پر غور کریں اور نقطوں کو ایک دوسرے سے جوڑیں تو لگتا ہے کہ یہ سب اسی "مشن" کے تناظر میں ہی وقوع پذیر ہوئے تھے۔

اس سلسلے میں اے این پی کے شاہی سید، پی پی پی کے ذوالفقار مرزا اور پیپلز امن کمیٹی، ٹی ٹی پی، پی ٹی آئی، مصطفیٰ کمال اور کچھ ٹی وی چینلز اور ان کے اینکرپرسنز نے اس گھناؤنے "مشن" میں اپنا اپنا کردار ادا کیا۔ اس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی کراچی از خود نوٹس کیس میں ریمارکس اور فیصلہ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی تھا۔

ایم کیو ایم میں تقسیم کے حوالے سے بھی رائٹرز کی رپورٹ میں الطاف حسین اور رابطہ کمیٹی کے ارکان کو دی گئی دھمکی کا بھی تذکرہ کیا گیا ہے جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ایم کیو ایم رابطہ کمیٹی (پاکستان) کے اراکین کو کیوں اپنے قائد سے  علیحدگی اختیار کرنی پڑی اور انہوں نے کیوں اپنے علیحدہ گروپس بنائے۔ رپورٹ کے الفاظ میں

اگر الطاف حسین استعفیٰ دے دیتے ہیں تو پارٹی باقی رہے گی، لیکن اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو پھر پارٹی بھی ان کے ساتھ ختم ہو جائے گی۔

اس دھمکی سے ایم کیو ایم پاکستان کے رہنماؤں کی 22 اگست 2016 کے بعد اپنے قائد کے بجائے "چیف" اور لندن کے بجائے "پنڈی" سے وفاداری کی تبدیلی کا معمہ بھی حل ہو جاتا ہے۔

ان تمام حقائق سے یہ بات سمجھنے میں آسانی ہوتی ہے کہ کس طرح فوجی جنرلز نے اپنے عہدے اور اختیارات کا ناجائز استعمال کر کے ریاستی طاقت کے ذریعے سندھ کے شہری علاقوں کا مینڈیٹ الطاف حسین اور ان کی جماعت ایم کیو ایم سے چھین کر ان کے سیاسی مخالفین، مثلاً پی ٹی آئی، پیپلز پارٹی، اور جماعت اسلامی کے حوالے کیے۔

ان کے اس شیطانی عمل سے مہاجر قوم کے حب الوطنی کے جذبے کو سخت ٹھیس پہنچی، جو کہ قومی یکجہتی میں دراڑیں ڈال کر پاکستان کو کمزور کرنے کے مترادف تھا۔

سوال یہ ہے کہ کیا اپنے حلف کی خلاف ورزی کر کے سیاسی سرگرمیوں میں ملوث ہونا اور اپنے مضموم مقاصد کی خاطر کسی نسلی اکائی (قوم مہاجر) کے خلاف طاقت کا استعمال کرنا آئینی، قانونی اور شرعی اعتبار سے قابل گرفت نہیں تھا؟ کیا الطاف حسین اور ان کی جماعت ایم کیو ایم کے خلاف فوجی افسران کے اس طرح کے خفیہ مشن، "سیاست میں ملوث ہو کر سرکاری اختیارات اور وسائل کا غلط استعمال کر کے ریاست کو نقصان پہنچانا" جیسے اعمال نہیں تھے؟ کیا اس سلسلے میں  کسی فوجی جنرل اور اس کے ماتحت افسران کا ملٹری ٹرائل نہیں ہوگا؟

یا صرف کسی جنرل کی وہی سیاسی سرگرمیاں غیر قانونی اور ملک کو نقصان پہنچانے کے مترادف سمجھی جائیں گی کہ جن سے ملٹری اسٹیبلشمنٹ میں تقسیم کا تاثر پیدا ہو اور ملک پر ان کا تسلط کمزور ہو؟ اگر ایسا ہے ( جو کہ واضح طور پر دکھائی بھی دے رہا ہے) تو پاکستان کا مستقبل نہایت تاریک ہے

Comments

Popular posts from this blog

مظہر عباس, سیاسی روبوٹس اور ان کا ریموٹ کنٹرول

"ہمیں منزل نہیں رہنما چاہیے"

"مردہ باد" کا نعرہ اور حقائق سے چشم پوشی