"ہمیں منزل نہیں رہنما چاہیے"


ایم کیو ایم کے مخالفین، بشمول کچھ نام نہاد "دانشور"، ہمیشہ اس نعرے پر تنقید کرتے رہے ہیں۔ وہ اسے غیر منطقی قرار دیتے اور اس کا مذاق اڑاتے ہیں:

ان کے مطابق "عوام اپنے رہنما کا انتخاب اور اس کے پیچھے اس لیے چلتے ہیں کہ وہ  رہنما چاہیے" انہیں منزل تک پہنچائے، مگر جب کوئی منزل ہی نہیں تو رہنما کی اہمیت کیا ہے؟"

یہ ایک عام بات ہے کہ ہر معاشرے میں کئی شخصیات ایسی ہوتی ہیں جن کو لوگ اپنے سیاسی، مذہبی، مسلکی یا کسی اجتماعی مقصد کے حصول کے لیے اپنا رہنما سمجھتے ہیں اور ان کی پیروی کرتے ہیں، مگر ہر لیڈر میں انقلابی خصوصیات نہیں ہوتیں اور جن میں ہوتی ہیں وہ اپنے پیروکاروں کے لیے نہایت اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔

اگر ہم پاکستان کی بات کریں تو کیا کوئی اور ایسی شخصیت نظر آتی ہے جس میں اتنی کشش ہو کہ ہزاروں، بلکہ لاکھوں لوگ ان کی ایک فون کال سننے کے لیے جمع ہو جائیں؟ اصولی طور پر پاکستان میں تو اصل سیاست ملک پر قابض طاقتور قوتوں کے خلاف ہونی چاہیے، ورنہ وہ سیاست نہیں بلکہ فکس یا فرینڈلی میچ ہی ہوگا، جو کہ کئی دہائیوں سے پہلے ہی جاری ہے۔        

الطاف حسین کی سیاست شروع ہی سے ان قوتوں کے خلاف تھی جس کا خمیازہ انہوں نے ابتدا ہی میں بھگتا اور تقریباً چار دہائیوں سے ابھی تک بھگت رہے ہیں۔ اس کے باوجود 1984 سے اب تک، حتی کہ سخت آپریشن کے دوران بھی، جس انداز سے الطاف حسین نے اپنے لوگوں اور پارٹی کی قیادت کی اور ابھی تک کر رہے ہیں، پاکستان میں کسی کے بھی بس کی بات نہیں تھی۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے چاہنے والے یہ نعرہ لگاتے ہیں، "ہمیں منزل نہیں، رہنما چاہیے"۔

متحدہ ہندوستان کے مسلمانوں نے اپنے حقوق کے لیے آل انڈیا مسلم لیگ قائم کی اور اس کے تحت اپنے حقوق کے لیے کام شروع کیا۔ تھوڑے عرصے بعد ہی ان کا واحد مقصد و منزل ایک علیحدہ ملک بن گیا۔ دہائیوں کی جدوجہد اور لاکھوں افراد کی قربانیوں کے بعد انہیں اپنی منزل مل گئی یعنی پاکستان بن گیا۔

مختصر الفاظ میں، یہی وہ منزل تھی جس کے لیے ہندوستان کے مسلمانوں نے اپنے قائدین کی پیروی کی۔ بدلے میں، قیادت نے اپنا فریضہ بخوبی انجام دیا۔ پیروکار اپنی منزل تک پہنچ گئے، یعنی انہوں نے پاکستان حاصل کر لیا۔ اب باقی کیا رہ گیا تھا کہ جو مسلمانوں کی قیادت کو کرنا تھا؟ بظاہر کچھ بھی نہیں! شاید ان کے پیروکاروں نے بھی یہی سوچا کہ چونکہ وہ اپنی منزل پہ پہنچ چکے ہیں اس لیے اب انہیں اپنے رہنماؤں کی کوئی ضرورت نہیں۔

اور پھر کچھ صورتحال ہی ایسی بنی کہ منزل پہ پہنچانے والی قیادت آہستہ آہستہ کر کے اس دنیا سے چلی گئی۔ اب بس پیروکار تھے اور ان کی منزل یعنی پاکستان۔ لیکن پھر ہوا کیا؟ قیادت کے جاتے ہی پاکستانی قوم میں کرپشن، بے ایمانی، بدگمانی، تفرقہ، تعصب اور عدم برداشت پروان چڑھنے لگی۔ نتیجتاً، وہ بکھرے ہوئے افراد جن کو ان کی قیادت نے متحد کر کے ایک قوم بنا دیا تھا اور منزل تک پہنچایا تھا، وہ لوگ سیاسی، مسلکی، مذہبی، نسلی و صوبائی بنیادوں پر گروہوں میں بٹ کر ایک دوسرے کے دشمن ہو گئے، اور انہوں نے اپنی منزل کو کھونا شروع کر دیا، یہاں تک کہ ملک کا ایک بڑا حصہ ٹوٹ کر علیحدہ ہو گیا اور باقی ماندہ پاکستان کا مستقبل کیا ہے، اس کا اندازہ سب کو بہت اچھی طرح ہے۔

اگر قائد اعظم اور ان کے ساتھی حیات ہوتے تو شاید پاکستان صرف پاکستان نہیں بلکہ متحدہ پاکستان یعنی کہ یونائیٹڈ اسٹیٹس آف پاکستان بن چکا ہوتا، پاکستان ایک ترقی یافتہ ملک بن چکا ہوتا، اور نسبتاً چھوٹی ریاستیں یا ممالک بھی متحدہ پاکستان کا حصہ بن چکی ہوتی۔ مگر افسوس، ایسا نہ ہو سکا اور آج ہم اس کا خواب بھی نہیں دیکھ سکتے۔

یہ تھا فرق قیادت کے ہونے اور نہ ہونے کا۔

آج بھی ملک میں مخلص قیادت کا ایسا کال پڑا ہے کہ 25 کروڑ افراد میں ہزاروں منہ بولے سیاسی، عسکری، مذہبی، مسلکی، نسلی و سماجی رہنماؤں کی موجودگی کے باوجود لوگ آج بھی ایک مخلص لیڈر کے منتظر ہیں اور اس کے لیے مسجد میں گڑگڑا کر دعائیں تک مانگ رہے ہیں۔

کیونکہ انہیں اس بات کا اچھی طرح اندازہ ہو گیا ہے کہ ایک مخلص رہنما کی بنا پر آپ کچھ نہ ہوتے ہوئے بھی بہت کچھ پا سکتے ہیں، لیکن اگر رہنما نہ ہو تو آپ اپنی پائی ہوئی منزل بھی کھو دیتے ہیں۔

اگر ہندوستان کے مسلمانوں کو آج کی صورتحال کا اندازہ پاکستان بننے سے پہلے ہو جاتا اور اس وقت ان کے سامنے دو آپشن ہوتے کہ آیا ان کو منزل چاہیے یا رہنما، تو وہ آپ کے خیال میں کس چیز کا انتخاب کرتے؟

اب اگر آپ یہاں آل انڈیا مسلم لیگ کی جگہ ایم کیو ایم، ہندوستان کے مسلمانوں کی جگہ مہاجر قوم اور قائد اعظم کی جگہ الطاف حسین کو رکھ لیں تو مثال بالکل فٹ بیٹھتی ہے۔


1984 میں کچھ نہ ہونے سے 21 اگست 2016 تک الطاف حسین کی بدولت بہت کچھ، اور پھر 22 اگست 2016 سے آج تک تقسیم در تقسیم اور کسمپرسی کی حالت بہت کچھ کہہ رہی ہے۔

پہلے صرف ایک ایم کیو ایم تھی جس کے رہنما الطاف حسین تھے، لیکن آج ایم کیو ایم کے نام پر بہت سارے گروپ اور درجنوں رہنما نمائندگی کے دعوے دار میدان میں ہیں۔ اور نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ جن کو اپنے الطاف حسین سے بڑے لیڈر ہونے کا زعم تھا ان سب نے اپنی کوشش کر کے دیکھ لی، نتیجہ پھر بھی ڈھاک کے تین پات۔

بلکہ مہاجروں کی صورتحال اس سے زیادہ بدتر ہو گئی ہے کہ جو 1980 کی دہائی میں تھی اور جس کی بنا پر الطاف حسین نے ایم کیو ایم قائم کی تھی۔ در حقیقت یہ الطاف حسین ہی تھے جنہوں نے ظلم و زیادتی کا شکار بکھرے ہوئے ہجوم کو ایک قوم بنایا اور دنیا بھر میں ان کی پہچان کرائی اور ان کی اہمیت کا احساس دلایا۔

الطاف حسین مہاجروں میں اتحاد اور یکجہتی کی روح کی مانند ثابت ہوئے تھے، جس کا اندازہ مہاجروں کے دشمنوں کو اچھی طرح تھا۔ تب ہی انہوں نے ایم کیو ایم کے لاکھوں افراد میں سے صرف "مائنس ون" پالیسی کا ہی انتخاب کیا۔

الطاف حسین کو بزور قوت ایم کیو ایم میں سے مائنس کرنے سے مہاجر قوم کو کیا نقصان ہوا، اس سوال کا جواب خاص طور پر 22 اگست 2016 کے بعد سے مسلط ہونے والی نسل پرستی کا شکار میٹرک اور انٹر کے طالب علموں، بے روزگار مہاجر نوجوانوں، بسوں میں سفر کرنے والی خواتین، سڑکوں پر قانون نافذ کرنے والے اداروں اور ٹریفک پولیس کا سامنا کرنے والوں، اور سرکاری محکموں کے افسران و دیگر عملے کے ہتک آمیز رویے کا نشانہ بننے والے افراد سے معلوم کر لیا جائے تو آپ کو حالات کی سنگینی کا اندازہ بخوبی ہو جائے گا۔

دوسرے الفاظ میں 22 اگست 2016 کے بعد سے "صرف منزل کی اہمیت" کے نعرے کی اوقات کھل کر سب کے سامنے آ گئی اور حقیقت میں دیکھا جائے تو "ہمیں منزل نہیں رہنما چاہیے" شاید پہلے صرف ایک نعرہ ہو لیکن 22 اگست 2016 کے بعد سے اس کا اصل مطلب اور اہمیت پہلے سے زیادہ اُبھر کر سامنے آئی ہے۔

لہذا اگر اب بھی کوئی اپنے آپ کو "صرف منزل" یا "منزل پہلے" کے دھوکے میں رکھنا چاہتا ہے تو اس کی اپنی مرضی ہے

Comments

Popular posts from this blog

مظہر عباس, سیاسی روبوٹس اور ان کا ریموٹ کنٹرول

"مردہ باد" کا نعرہ اور حقائق سے چشم پوشی