"مردہ باد" کا نعرہ اور حقائق سے چشم پوشی

پچھلے کئی سالوں کی طرح، اس سال بھی 9 دسمبر 2024 کو حکومتِ پاکستان اور اس کے ریاستی اداروں نے عزیزآباد میں واقع یادگار شہداء اور یاسین آباد قبرستان کے پاس رکاوٹیں کھڑی کر کے تمام راستوں کو بند کر دیا تھا تاکہ وہاں عوام پہنچ کر فاتحہ خوانی نہ کر سکیں۔ اس سلسلے میں کافی لوگوں کو گرفتار بھی کیا گیا۔ ان تمام کارروائیوں کی بنیاد الطاف حسین کی 22 اگست 2016 کی تقریر کو بنایا جاتا ہے۔

 22 اگست 2016 سے ایم کیو ایم کے خلاف ایک نیا آپریشن شروع کیا گیا۔ اس میں اس کے بانی و قائد الطاف حسین کے نام، تقریر و تصویر پر پابندی لگا دی گئی، مرکزی دفتر المعروف نائن زیرو کو سیل کر دیا گیا، اور اس کی تمام سیاسی سرگرمیوں پر پابندی عائد کر دی گئی۔ چھاپے، گرفتاریاں، کارکنوں کی جبری گمشدگی، ماورائے عدالت قتل ہوئے، اور اس کے علاوہ پاکستان میں موجود دیگر عہدیداروں کو گن پوائنٹ پر اپنے قائد سے لاتعلقی کا اعلان کروا کر علیحدہ علیحدہ دھڑے بنوائے گئے۔ وجہ الطاف حسین کے "مردہ باد" کے نعرے کو بتایا گیا۔

اگر واقعی "مردہ باد" کا نعرہ ہی اصل وجہ تھی، تو 19 جون 1992 سے لے کر 21 اگست 2016 تک الطاف حسین کی جماعت ایم کیو ایم کے خلاف فوج، رینجرز اور پولیس کے ذریعے مسلسل آپریشنز کیوں کیے گئے؟ اور اس دوران مہاجر قوم کا سیاسی، معاشی اور جسمانی قتلِ عام کیوں کیا گیا؟ مہاجروں کی اس نسل کشی کا جواز کیا تھا؟

ہے کوئی جواب؟

یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ 2015 سے الطاف حسین کی ایم کیو ایم کے خلاف آپریشن کا ایک نیا سلسلہ شروع کیا گیا تھا۔ کراچی میں جاری آپریشن کے حوالے سے 2015 میں شائع ہونے والی رائٹرز کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کی اہم خفیہ ایجنسی کے سربراہ ایک سیاسی جماعت (ایم کیو ایم) سے کراچی کا کنٹرول چھیننے کی مہم کی قیادت کر رہے تھے، جس کو "مشن کریپنگ کو" (Creeping Coup) کا نام دیا گیا تھا۔

کچھ پاکستانی حکام کا حوالہ دیتے ہوئے رپورٹ میں یہ بھی دعویٰ کیا گیا کہ ملٹری اسٹیبلشمنٹ نے فیصلہ کیا ہے کہ کراچی میں کسی جماعت کو حکومت نہیں کرنے دی جائے گی۔ رپورٹ کے مطابق، کراچی میں سویلین انتظامیہ کو سائیڈ لائن کر دیا گیا تھا اور یہ فیصلے رینجرز کے سربراہ اور سندھ کے چیف ملٹری کمانڈر لے رہے تھے۔

اصل رپورٹ - مہرین زہرہ ملک:

http://www.reuters.com/article/2015/04/27/us-pakistan-karachi-insight-idUSKBN0NH0WK20150427

اس دوران ایم کیو ایم کے کارکنان کی بلاجواز گرفتاریاں، جبری گمشدگیاں اور ماورائے عدالت قتل کیے جا رہے تھے، اور باوجود ہر فورم پر آواز اٹھانے کے، کہیں سے کوئی داد رسی نہیں ہو رہی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ ایم کیو ایم کو بھوک ہڑتال پر بیٹھنا پڑا۔

اگر ایمانداری سے تمام حالات کا تجزیہ کیا جائے تو یہ بات بآسانی سمجھ میں آتی ہے کہ بات "مردہ باد" کے نعرے تک کیسے پہنچی۔ 

اب آتے ہیں الطاف حسین کے نعرے کے اصل الفاظ کی طرف۔ الطاف حسین نے اپنی تقریر میں جہاں پاکستان میں دہائیوں سے جاری مہاجروں کے ساتھ نسلی بنیاد پر امتیازی سلوک اور ان کی نسل کشی کا تذکرہ کیا، وہیں ملک میں بڑھتی ہوئی طالبانائزیشن (ریڈیکلائزیشن) کی مذمت بھی کی۔ اور اس کے بعد انہوں نے یہ کہا کہ:

"جہاں نسل کی بنیاد پر کسی قومیت کی نسل کشی کی جائے اور طالبانائزیشن کو فروغ دے کر دہشت گردی کا مرکز بنایا جائے، ایسے پاکستان کو میں زندہ باد نہیں بلکہ مردہ باد کہوں گا"

اب سوال یہ ہے کہ الطاف حسین نے کیا غلط کہا؟ کیا ملک میں موجود کسی مخصوص قومیت کے خلاف ظلم و زیادتی کی حمایت کی جا سکتی ہے؟ یہ الفاظ تو مہاجروں کے خلاف ناانصافی، سیاسی عدم مساوات اور دہشت گردی کے فروغ کے خلاف احتجاج کا اظہار تھے۔ ایسا کون شخص ہوگا جو کسی قومیت کے خلاف نسلی امتیاز اور ظلم و زیادتی کی حمایت کرے؟ کم از کم ایک غیرجانبدار اور صحیح مسلمان تو ایسا ہرگز نہیں کرے گا۔ جبکہ نہ صرف خود پاکستان کا آئین بلکہ یو این چارٹر بھی ہر شہری کے بنیادی حقوق کے تحفظ کی ضمانت دیتا ہے۔

لیکن اگر نسلی امتیاز برتیں گے تو اس کے نتائج بھی ویسے ہی نکلیں گے جیسے 1971 میں پاکستان کی تقسیم کی صورت میں نکلے تھے، اور آج بلوچستان اور کے پی کے میں بے چینی کی شکل میں سامنے آ رہے ہیں۔ بالکل اسی طرح کیا قائداعظم محمد علی جناح کی سوچ کے برعکس پاکستان میں مذہبی انتہا پسندی کو فروغ دینا صحیح ہے؟ کیا کسی ایسے عمل کی حمایت کرنی چاہیے؟ اگر پاکستان میں طالبانائزیشن یا مذہبی شدت پسندی کا عمل صحیح ہے، تو آج خود حکومت اور اس کے ریاستی ادارے طالبان کو فتنہ قرار دے کر آپریشن "رد الفتنہ" اور "آپریشن رد الفساد" کیوں کر رہے ہیں؟

کیا ان حقائق سے الطاف حسین کی باتوں کی تصدیق نہیں ہوتی؟

ہو سکتا ہے کہ اس مرحلے پر کوئی نام نہاد تجزیہ نگار یہ اعتراض کرے کہ "ساری باتیں صحیح، لیکن لفظ پاکستان کی حرمت اپنی جگہ ہے، جس کا خیال رکھا جانا چاہیے تھا۔"

 سوال یہ ہے کہ کسی لفظ کی اہمیت کیا انسانی جان سے بڑھ کر ہے؟ مزید یہ کہ اگران کی یہ دلیل مان بھی لی جائے تو ان کو یہ بات نہیں بھولنا چاہیے کہ 2018 کے وہ انتخابات تھے جن میں عمران خان اور پی ٹی آئی نے پرانے پاکستان کی جگہ نیا پاکستان بنانے کا منشور دیا تھا، اور اسی منشور پر انہوں نے انتخابات میں کامیابی حاصل کر کے حکومت بنائی تھی۔

سوال یہ ہے کہ انتخابات میں "نیا پاکستان" بنانے کے نام پر "پرانا پاکستان" کو ووٹ کے ذریعے عوام سے مسترد کرانا کیا لفظ "پاکستان" کی بے حرمتی نہیں تھی؟ عمران خان اور پی ٹی آئی کے دیگر رہنماؤں نے انتخابات میں کامیابی کے بعد کئی دفعہ کہا کہ عوام نے "پرانا پاکستان" مسترد کر دیا۔ تو پی ٹی آئی کا "پرانا پاکستان" کو شکست دینا، کیا "پاکستان" کو شکست دینا نہ سمجھا جائے؟ بالکل ایسے ہی جیسے الطاف حسین کی 22 اگست 2016 کی تقریر میں ان کے الفاظ "ایسے پاکستان کو" صرف "پاکستان" سمجھا اور پیش کیا گیا۔

سونے پہ سہاگہ یہ کہ 2018 کے انتخابات میں عمران خان اور پی ٹی آئی کی کامیابی اور اس کے بعد ان کے حکومت چلانے میں ہمارے ریاستی اداروں کا کتنا تعاون حاصل تھا، یہ ایک کھلا راز ہے۔ فیض حمید کے خلاف حالیہ چارج شیٹ اسی بات کو ثابت کرتی ہے۔ کیا یہ تمام حقائق الطاف حسین کی بے گناہی ثابت نہیں کرتے؟تو اب کس منہ سے ایم کیو ایم کے سیاسی مخالفین و حکومتی ادارے الطاف حسین پر تنقید کر سکتے ہیں؟ 

شرم ان کو مگر نہیں آتی۔

لیکن اگر پھر بھی الطاف حسین کی 22 اگست 2016 کی تقریر یا "مردہ باد" کا نعرہ سمجھ میں نہیں آتا، تو پھر پاکستان کی حکومت اور اس کے طاقتور ریاستی اداروں کو چاہیے کہ وہ الطاف حسین کے نعرے سے "اصولی" اختلاف کرتے ہوئے ملکی و بین الاقوامی فورم پرسرکاری طور پر یہ بات کہیں کہ :  

"جہاں نسل کی بنیاد پر کسی قومیت کی نسل کشی کی جائے اور طالبانائزیشن کو فروغ دے کر دہشت گردی کا مرکز بنایا جائے، ایسے پاکستان کو ہم مردہ باد نہیں بلکہ زندہ باد کہیں گے۔" 

کریں گے وہ ایسا؟ ہے اتنی ہمت ان میں؟

Comments

Popular posts from this blog

مظہر عباس, سیاسی روبوٹس اور ان کا ریموٹ کنٹرول

"ہمیں منزل نہیں رہنما چاہیے"