مظہر عباس, سیاسی روبوٹس اور ان کا ریموٹ کنٹرول
چند روز پہلے معروف کالم نگار جناب مظہر عباس صاحب نے روزنامہ جنگ اخبار میں ایک کالم تحریر کیا جس میں انہوں نے بظاہر تو حالیہ 26ویں آئینی ترمیم پر بات کی، لیکن ان کی اصل توجہ ایم کیو ایم پاکستان کی سیاسی و عسکری مجبوریوں پر مرکوز رہی۔ ان کے مطابق، ایم کیو ایم پاکستان نے اپنی مرضی سے نہیں بلکہ “کسی” کی ہدایت پر، ریموٹ کنٹرول کے تحت چلنے والے ایک روبوٹ کی طرح عمل کرتے ہوئے 26ویں آئینی ترمیم کی حمایت کی۔(ویسے یہ بات ایک کھلا راز ہے، جس کا علم پاکستان کی سیاست پر نظر رکھنے والے تقریباً ہر شخص کو ہوگ) ۔
ذرا تصور کریں کہ تقریباً 25 کروڑ آبادی رکھنے والے اور ایٹمی صلاحیت کے حامل ایک ملک کی پارلیمنٹ میں آئینی ترامیم، یعنی قانون سازی، ریموٹ کنٹرول کے اشارے پر کی جاتی ہے, ملکی منتخب سیاسی و مذہبی جماعتوں کو ایک روبوٹ کی طرح کنٹرول کیا جاتا ہے۔ اور ظاہر ہے یہ پہلی دفعہ ایسا نہیں ہوا۔ قائداعظم، لیاقت علی خان، اور خاص طور پر فاطمہ جناح کے انتقال کے بعد سے یہ سلسلہ مسلسل جاری ہے۔ عدلیہ بحالی تحریک کے دوران، تمام وکلاء اور جج صاحبان نے یہ کہہ کر تحریک چلائی کہ "عدلیہ 60 سال سے غلام بنی ہوئی ہے۔" یہ بیان خود اس حقیقت کی مکمل تصدیق کرتا ہے۔
اس کے علاوہ فیض حمید کے معاملے پر انصار عباس اور حامد میر کے لکھے ہوئے کالم ملک میں جاری معاملات کی حقیقت کی بیان کر دینے کے لیے کافی ہیں- جب کہ فیض حمید کا معاملہ 77 سالوں سے پاکستان پر مسلط ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے "روبوٹ اور ریموٹ کنٹرول راج" کی صرف ایک جھلک ہے
اگرچہ جس انداز سے 26 ویں ائینی ترمیم منظور کی گئی, اس انداز سے قانون سازی پہلی دفعہ نہیں کی گئی تھی، اور یہ بھی حقیقت ہے کہ ایم کیو ایم پاکستان کے اراکین کی تعداد پارلیمنٹ میں آٹے میں نمک کے برابر تھی، لیکن اس کے باوجود مظہر عباس نے اپنے کالم میں ہدف صرف ایم کیو ایم پاکستان کو بنایا۔ ویسے یہ کوئی نئی بات نہیں ہے، کیونکہ ایم کیو ایم اپنے قیام ہی سے پاکستان کے صحافیوں اور کالم نگاروں کی تنقید کا مستقل نشانہ رہی ہے- گویا ایم کیو ایم نہ ہوئی، کوئی یتیم بچہ ہوگئی، جسے جب کسی نے چاہا، چپت لگا کر چل دیا۔لیکن 22 اگست 2016 کے بعد سے ایم کیو ایم پاکستان کو عسکری قوتوں نے گود میں لے لیا، اور اسے چلانے کے لیے وہ اپنے دونوں ہاتھوں کا استعمال کرتے ہیں؛ ایک شفقت کے لیے اور دوسرا ان کی بیٹری “چارج “کرنے کے لیے۔
اب مظہر عباس خود ہی اندازہ لگالیں کہ ایم کیو ایم پنڈی کے پاس ایک روبوٹ کی طرح کام کرنے کے علاوہ اب رہ بھی اور کیا گیا ہے؟
ذرا تصور کریں کہ ایم کیو ایم پاکستان کے خالد مقبول صدیقی اور ان کے دیگر منتخب اراکین کے چہروں پر شرمندگی اور بے بسی کی وہ
کیا کیفیت ہوگی کہ جسے دیکھ کر مظہر عباس صاحب نے انہیں ریموٹ کنٹرول سے چلنے والے روبوٹ سے تشبیہ دی۔
ویسے مظہر عباس صاحب کو یہ سوال خالد مقبول صدیقی سے ضرور کرنا چاہیے تھا کہ کیا انہوں نے اپنی ایم کیو ایم میں شمولیت کے بعد 21 اگست 2016 تک کبھی ایسی شرمندگی یا بے بسی محسوس کی تھی جیسی آج وہ اور ان کے دیگر ساتھی محسوس کر رہے ہیں؟
یہ وہ واحد "جرم" تھا الطاف حسین کا کہ انہوں نے دیگر سیاسی، مذہبی جماعتوں، صحافیوں اور ججوں کی طرح روبوٹ بن کر ریموٹ کنٹرول کے اشاروں پر چلنے سے انکار کر دیا تھا۔ اسی انکار کا نتیجہ ہے کہ وہ 1984 سے مسلسل آپریشنز کا سامنا کر رہے ہیں۔ لیکن یہی وہ وجہ ہے کہ آج بھی ان کا سر کسی شرمندگی یا بے بسی سے نہیں جھکتا ۔ وہ جو صحیح سمجھتے ہیں، ڈنکے کی چوٹ پر کہتے ہیں۔ وہ بولتے لندن میں ہیں، لیکن ان کے الفاظ کی سچائی کی گھن گرج پنڈی، جاتی عمرہ، اور لاڑکانہ تک محسوس ہوتی ہے۔
ظہر عباس صاحب, آپ نے اپنے کالم میں ایم کیو ایم پر لگائے گئے الزامات کا ذکر کیا، لیکن کیا آپ یہ نہیں جانتے کہ یہ الزامات کہاں فیبریکیٹ ہوئے، کس نے انہیں کس نے پھیلایا اور ان کو کس طرح قانونی حیثیت دی گئی؟
ایم کیو ایم اور الطاف حسین پر لگائے گئے تمام الزامات روبوٹ آرڈیننس فیکٹری میں تیار کیے گئے، سیاسی و مذہبی روبوٹس کے ذریعے پھیلایا گیا، اور غلام عدلیہ کے ذریعے انڈورس کرایا گیا۔ یہاں تک کہ کارکنوں کو گرفتار کر کے ان سے اعترافی بیانات پر مبنی پریس کانفرنسز کرائی گئیں۔ ان سے زبردستی انہی کی اپنے قائد اور جماعت کے خلاف الزامات بھی لگائے گئے تاکہ ایم کیو ایم کے خلاف مزید کارروائیوں کے لیے جواز پیدا کیا جا سکے۔ میڈیا پر پریس کانفرنسز میں "اعترافی بیانات" پڑھتے ہوئے ایم کیو ایم کے یہ گرفتار شدہ کارکنان, قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کسٹڈی میں کم، طالبان یا القاعدہ کے یرغمالی زیادہ دکھائی دیتے تھے۔
اس کے علاوہ کراچی از خود نوٹس مقدمے کی سنوائی کے دوران "روبوٹ کنٹرول اتھارٹی" کے "اتھارائزڈ نمائندے" رضوان اختر نے ہیڈ کوارٹر میں امن و امان کے حوالے سے بریفنگ کے نام پر ایم کیو ایم کے خلاف "عدالتی روبوٹس" کی بیٹریاں جس طرح "چارج" کیں اور ان کی "فیڈنگ" کی، وہ بھی ایک ریکارڈ کا حصہ ہے۔
ایک بات اور، مظہر عباس صاحب نے اپنے "تجربے" کی بنا پر سوٹڈ بوٹڈ خالد مقبول صدیقی میں چھپے ریموٹ کنٹرول سے چلنے والے ایک روبوٹ کو تو آسانی سے دیکھ لیا ، لیکن وہ "اعترافی بیانات" پڑھنے والے ایم کیو ایم کے گرفتار شدہ کارکنان کی شکل میں " طالبان یا القاعدہ کے یرغمالیوں” کو نہیں پہچان پائے؟۔ آخر کیوں؟ وہاں مظہر عباس صاحب ایک تجربہ کار صحافی کے بجائے “ننھے کاکے” کیسے بن گئے؟
مظہر عباس صاحب نے اپنے کالم میں 1992 میں آفاق احمد اور 2016 میں مصطفیٰ کمال کو لانچ کیے جانے کا بھی تذکرہ کیا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ 1992 اور 2016 میں جب ان روبوٹس کو الطاف حسین اور ان کی جماعت ایم کیو ایم کے خلاف لانچ کیا گیا تھا تو کیا اس وقت مظہر عباس صاحب نے ان کو "کسی" کی ہدایت پر چلنے والے روبوٹس سے تشبیہ دی تھی؟ کیا اس وقت اس سچائی کا اظہار کیا تھا؟
نہیں، بالکل نہیں! بلکہ اس وقت بھی مظہر صاحب "غلطیاں"، "کوتاہیاں" اور "اصول اختلاف" کی گردان کر کے الطاف حسین کو ہی تنقید کا نشانہ بنا رہے تھے اور جب الطاف حسین نے حقیقی اور پی ایس پی کو لانچ کرنے کے حوالے سے ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے ملوث ہونے کی بات کی تو مظہر عباس اور ان جیسے دوسرے صحافیوں نے الطاف حسین کے حقائق بتانے کے اس عمل کو ملک کے اداروں کی کردار کشی کرنے سے تعبیر کیا۔
اگر واقعی ایسا تھا تو آج، جب مظہر صاحب خود اپنے کالم میں روبوٹس اور ریموٹ کنٹرول کی سیاست کا ذکر کر رہے ہیں، تو کیا یہ ملک کے حساس اداروں کی عزت افزائی کر رہے ہیں ؟
"شرم تم کو مگر نہیں آتی!"
اسلام میں ایک مسلمان کی جان، مال، عزت و آبرو کسی دوسرے مسلمان پر حرام ہے۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اسلام کے نام پر بنے ایک ملک میں اگر کوئی فرد، جماعت یا ادارہ کسی ذاتی، سیاسی یا نسلی اختلافات کی بنا پر کسی مخصوص جماعت یا طبقے کی کردار کشی کر کے اس کی جان مال عزت و ابرو کو زبردستی حلال کرنے کی کوشش کریں تو کیا ایسے کسی عمل کا ساتھ دینا یا اس پر خاموش رہنا شرعاً جائز ہوگا؟ اگر نہیں، تو مہاجروں کے خلاف تقریباً چار دہائیوں سے جاری آپریشنز اور ان کی نسل کشی پر پر سب کی خاموشی کیوں؟
اصولی، اخلاقی، اور شرعی طور پر مظہر عباس صاحب کو اس ناانصافی اور ایک منظم نسل کشی کے خلاف آواز اٹھانی چاہیے تھی۔ لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا- کیسے کرتے؟ کیونکہ وہ بھی ایک روبوٹ ہی کی طرح کام کر رہے ہیں، اور خود ان کے الفاظ میں
"روبوٹ تو بس ریموٹ سے چلتے ہیں، جو فیڈ کر دیا، بس وہی کرتے ہیں؛ انکار کی گنجائش نہیں۔"
لیکن مظہر عباس صاحب یاد رکھیں، روزِ حشر آپ کو اپنے اعمال کا جواب خود دینا ہی ہوگا، کیونکہ وہاں نہ کوئی "کمانڈر بھائی" کام آئے گا اور نہ ہی کسی "بھٹو" سے تعلقات
At least someone dared to show a mirror to journalists like Mazhar Abbas
ReplyDelete