مہاجروں کے لیے لمحہ فکریہ
مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے حقائق یہ واضح کرتے ہیں کہ مغربی پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ بنگالیوں کے خلاف نسلی تعصب رکھتی تھی اور انہیں ملک کے مساوی شہری تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں تھی۔ بنگالی مسلمانوں کے خلاف فوجی آپریشن اور بڑے پیمانے پر قتل عام اسی نفرت کا نتیجہ تھے۔ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ مغربی پاکستان کے عوام کی مجرمانہ خاموشی نے بنگالیوں کو دیوار سے لگا دیا اور انہیں اپنی نسل کشی سے نجات حاصل کرنے کے لیے بھارت سے مدد مانگنے کے سوا کوئی راستہ نظر نہیں آیا۔
یہ ذکر کرنا بے جا نہیں ہوگا کہ الطاف حسین نے ایم کیو ایم کی بنیاد اردو بولنے والی کمیونٹی کے ساتھ کئی دہائیوں سے جاری عدم مساوات اور ناانصافی کے خلاف آواز بلند کرنے کے لیے رکھی تھی۔ انہوں نے دوسرے پاکستانیوں کی طرح انصاف اور مساوی حقوق کا مطالبہ کیا۔
تاہم، مہاجروں کی شکایات کا ازالہ کرنے کے بجائے، ریاست نے اسپانسرڈ عسکری گروہوں کو اس مظلوم قوم کے خون سے ہولی کھیلنے کے لیے چھوڑ دیا۔ صرف چند گھنٹوں میں سینکڑوں مہاجرین ان دہشت گردوں کے ہاتھوں قتل کر دیے گئے۔ علی گڑھ، قصبہ کالونی، سہراب گوٹھ کراچی اور حیدراباد پکا قلعہ کے قتل عام کے واقعات اس کی چند مثالیں ہیں۔ لیاری میں درجنوں اردو بولنے والے افراد کو اغوا کیا گیا، بے رحمی سے تشدد کا نشانہ بنا کرذبح کیا گیا، اور ان کے جسمانی اعضا کے ٹکڑے کیے گئے۔ یہاں تک کہ ان کے جسمانی اعضا کے ٹکڑے کر کےان کو بوریوں میں ڈال کر ایم کیو ایم کے لیے پیغام بھیجا گیا کہ "بس ؟ یا اورلاشیں چاہئیں؟
یہی نہیں، کراچی میں بدترین اپریشن کیے گئے ، لیکن ان کا مقصد مہاجروں کے قاتلوں کو انصاف کے کٹہرے میں لانا نہیں تھا، بلکہ پہلے ہی مظلوم کمیونٹی اور ان کی نمائندہ جماعت کو کچلنا تھا۔ امن کی بحالی کے نام پر 22,000 سے زیادہ افراد قتل کر دیے گئے, درجنوں گرفتاریوں کے بعد لاپتہ ہوئے، سینکڑوں کو ماورائے عدالت قتل کیا گیا، اور ہزاروں اب بھی قید ہیں، صرف اس جرم پر کہ انہوں نے اپنے بنیادی حقوق کے حصول کے لیے الطاف حسین کی جدوجہد میں ان کا ساتھ دیا۔
سب نے دیکھا کہ پاکستان کی سیاسی و مذہبی جماعتوں نے کشمیر و فلسطین سمیت دنیا میں دنیا میں کہیں بھی مسلمانوں پر ہونے والے کسی بھی نوعیت کے ظلم و زیادتی کے خلاف اواز اٹھائی, حتی کہ طالبان کی امریکی ڈون حملوں میں ہلاکت کی بھی نہ صرف مذمت کی بلکہ احتجاجا نیٹو سپلائی تک بلاک کر دی-دوسری طرف اپنے ہی ملک میں اپنے ہی مسلمان بھائیوں (مہاجروں )کے خلاف ہونے والے مظالم پر ان کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کرنے ملک کے کسی بھی کونے سے کوئی بھی نہیں آیا۔ بلکہ ان پر ظلم کے خلاف آواز اٹھانے کے بجائے، سیاسی و مذہبی جماعتوں نے قانون نافذ کرنے والے اداروں اور ان جانبدار افسران کی بھرپور حمایت کی جنہوں نے ان مظالم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔
صرف یہی نہیں بلکہ کراچی بھر میں ہزاروں بینرز، پوسٹرز اور ہورڈنگز لگائے گئے جن میں مہاجروں کی واحد نمائندہ جماعت ایم کیو ایم کے خلاف کریک ڈاؤن پر فوج اور رینجرز کا شکریہ ادا کیا گیا۔ یہ کچھ اور نہیں، بلکہ اردو بولنے والی کمیونٹی کے لیے پاکستان میں شدید نفرت کی انتہا تھی۔
یہ بات بھی بڑی مضحکہ خیز ہے کہ ١٩٩٢ میں ایم کیو ایم کے خلاف فوجی اپریشن حوالے سے یہ وضاحت دی گئی کہ وہ اس وقت کے ارمی چیف جنرل اصف نواز کا ذاتی فعل تھا- سوال یہ ہے کہ کیا دہائیوں سے جاری مظالم کو کسی "فرد واحد" کا عمل قرار دیا جا سکتا ہے؟
اگر تھوڑی دیر کے لیے یہ فرض کر بھی لیا جائے کہ یہ کسی ایک متعصب شخص کا انفرادی فعل تھا تو حکومت اور اس کے اداروں میں موجود بقیہ "مقدس" اور "شریف" لوگ اس ایک "فرد" کو کو روکنے کے لیے آگے کیوں نہیں آئے؟ کیوں ہر دفعہ ایک نئے "ذہنی بیمار" کو مہاجروں پر مظالم کرنے کے لیے کھلا چھوڑ دیا جاتا ہے ؟ اور یہ سلسلہ اب تک کیوں جاری ہے ؟
حقیقت یہ ہے کہ ظلم روکنے کے بجائے ایسے لوگوں کے ساتھ نہ صرف پورا تعاون کیا گیا بلکہ ان کو مہاجروں کے خلاف کارروائی کرنے پر انعامات سے بھی نوازا -یہ سب اسٹیٹ کی ایک اقاعدہ پالیسی کو ظاہر کرتا ہے- یہی وجہ ہے کہ یہ سلسلہ اب تک تھما نہیں ہے گیا۔
کیا یہ نفرت پر مبنی پالیسی مہاجروں کو واضح اور صاف پیغام نہیں دے رہی کہ پاکستان میں کوئی انہیں قبول کرنے کے لیے تیار نہیں؟ کیا ایسا منفی پیغام ملک میں ضروری نسلی ہم آہنگی اور اتحاد کو فروغ دے سکتا ہے؟ نہیں، بالکل بھی نہیں!
یہ ساری صورتحال مہاجروں کے لیے بھی ایک لمحہ فکریہ ہے کہ ایا انہیں اسی طرح ظلم و زیادتی کا شکار رہنا ہے یا دوبارہ متحد ہو کر اس ظلم کے خلاف اواز اٹھانی ہے تاکہ ان کی انے والی نسلیں تو اس تعصب کا شکار نہ ہو سکیں
Comments
Post a Comment