Posts

Showing posts from December, 2024

"صلو وچ" بنام "سرجی"

 چند دن قبل ایک نام نہاد صحافی سہیل وڑائچ نے ایک کالم لکھا جو کہ الطاف حسین کے عمران خان کے نام ایک فرضی خط پر مشتمل تھا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر الطاف حسین کو عمران خان کے نام کو خط لکھنا ہوتا تو وہ خود لکھتے۔ کسی اور کو کیا حق پہنچتا ہے کہ وہ الطاف حسین کی جانب سے ان کی اجازت کے بغیر خود اپنی سوچ کے مطابق باتیں لکھے؟ پاکستان میں شاید یہ صحافت کہلاتی ہو لیکن ایک مہذب معاشرے میں یہ ایک گری ہوئی حرکت سمجھی جاتی ہے۔ اگرچہ کافی لوگوں نے سہیل وڑائچ کی توجہ اس جانب مبذول کرائی اور تنقید بھی کی، لیکن نہ تو انہوں نے اپنے اس عمل پر معذرت کی اور نہ ہی کالم کو ڈیلیٹ کیا۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اپنے اس عمل سے مطمئن ہیں۔ جب ایسا ہے تو اس فرضی خط کی طرز پر، ان کا بھی ایک خط حاضر ہے جو یقینا ان کے اطمینان میں اضافے کا باعث بنے گا۔ "صلو وچ" بنام "سرجی" سلام سر جی! اب تو یقینا آپ خوش ہوں گے کہ میں نے آپ کا بھیجا ہوا ڈاکومنٹ جیسا ریسیو کیا، ویسے ہی "لندنی بھائی بنام اڈیالہ بھائی" کے عنوان سے میڈیا پر شیئر کر دیا۔ میں نے ہمیشہ آپ کا دیا ہوا ہر اسائنمنٹ وقت پر اور آ...

مہاجروں کے لیے لمحہ فکریہ

  مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے حقائق یہ واضح کرتے ہیں کہ مغربی پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ بنگالیوں کے خلاف نسلی تعصب رکھتی تھی اور انہیں ملک کے مساوی شہری تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں تھی۔ بنگالی مسلمانوں کے خلاف فوجی آپریشن اور بڑے پیمانے پر قتل عام اسی نفرت کا نتیجہ تھے۔ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ مغربی پاکستان کے عوام کی مجرمانہ خاموشی نے بنگالیوں کو دیوار سے لگا دیا اور انہیں اپنی نسل کشی سے نجات حاصل کرنے کے لیے بھارت سے مدد مانگنے کے سوا کوئی راستہ نظر نہیں آیا۔ شہری سندھ، خاص طور پر کراچی میں جو کچھ ہو رہا ہے، اسے دیکھتے ہوئے کیا یہ محسوس نہیں ہوتا کہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ وہی پالیسی مہاجرین اور ایم کیو ایم کے خلاف اپنا رہی ہے جو اس نے 1971 میں بنگالی مسلمانوں کے خلاف اپنائی تھی؟ یہ ذکر کرنا بے جا نہیں ہوگا کہ الطاف حسین نے ایم کیو ایم کی بنیاد اردو بولنے والی کمیونٹی کے ساتھ کئی دہائیوں سے جاری عدم مساوات اور ناانصافی کے خلاف آواز بلند کرنے کے لیے رکھی تھی۔ انہوں نے دوسرے پاکستانیوں کی طرح انصاف اور مساوی حقوق کا مطالبہ کیا۔ تاہم، مہاجروں کی شکایات کا ازالہ کرنے کے بجائے، ریاست نے اسپان...

اپنے حلف کی خلاف ورزی اور عہدے کا ناجائز استعمال کی لت

 پاکستانی میڈیا کے مطابق جنرل فیض حمید کے خلاف سیاسی سرگرمیوں میں ملوث ہونے، آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزی جیسے ریاست کو نقصان پہنچانے کے اقدامات، اختیارات اور سرکاری وسائل کے غلط استعمال کے الزامات کے تحت کارروائی ہو رہی ہے۔ آئی ایس پی آر کے بیان کے مطابق، لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کے بدامنی پیدا کرنے سے متعلق واقعات میں اس پہلو پر بھی تحقیقات ہو رہی ہیں کہ یہ ذاتی سیاسی مفاد پر کیے گئے تھے یا اس میں کوئی ملی بھگت بھی شامل تھی۔ اصولی طور پر فوجی افسران سیاست میں ملوث نہیں ہو سکتے۔ اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو وہ نہ صرف آئین پاکستان بلکہ خود اپنے حلف کی خلاف ورزی کا مرتکب ہوتا ہے۔ اس لیے اگر فیض حمید کے خلاف تحقیقات اور جرم ثابت ہونے پر کارروائی ہوتی ہے تو یہ ایک اچھا عمل ہے۔     لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا فیض حمید وہ واحد فوجی جنرل تھے جنہوں نے سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لیا اور مخصوص مفادات کے حصول کے لیے اپنے اختیارات اور ریاستی وسائل کا ناجائز استعمال کیا؟ کیا اس سے پہلے کبھی ایسا نہیں ہوا؟ اس سوال کے جواب سے پاکستانی سیاست پر نظر رکھنے والا ہر شخص بخوبی واقف ہ...

"مردہ باد" کا نعرہ اور حقائق سے چشم پوشی

پچھلے کئی سالوں کی طرح، اس سال بھی 9 دسمبر 2024 کو حکومتِ پاکستان اور اس کے ریاستی اداروں نے عزیزآباد میں واقع یادگار شہداء اور یاسین آباد قبرستان کے پاس رکاوٹیں کھڑی کر کے تمام راستوں کو بند کر دیا تھا تاکہ وہاں عوام پہنچ کر فاتحہ خوانی نہ کر سکیں۔ اس سلسلے میں کافی لوگوں کو گرفتار بھی کیا گیا۔ ان تمام کارروائیوں کی بنیاد الطاف حسین کی 22 اگست 2016 کی تقریر کو بنایا جاتا ہے۔  22 اگست 2016 سے ایم کیو ایم کے خلاف ایک نیا آپریشن شروع کیا گیا۔ اس میں اس کے بانی و قائد الطاف حسین کے نام، تقریر و تصویر پر پابندی لگا دی گئی، مرکزی دفتر المعروف نائن زیرو کو سیل کر دیا گیا، اور اس کی تمام سیاسی سرگرمیوں پر پابندی عائد کر دی گئی۔ چھاپے، گرفتاریاں، کارکنوں کی جبری گمشدگی، ماورائے عدالت قتل ہوئے، اور اس کے علاوہ پاکستان میں موجود دیگر عہدیداروں کو گن پوائنٹ پر اپنے قائد سے لاتعلقی کا اعلان کروا کر علیحدہ علیحدہ دھڑے بنوائے گئے۔ وجہ الطاف حسین کے "مردہ باد" کے نعرے کو بتایا گیا۔ اگر واقعی "مردہ باد" کا نعرہ ہی اصل وجہ تھی، تو 19 جون 1992 سے لے کر 21 اگست 2016 تک الطاف حسین کی ج...