"صلو وچ" بنام "سرجی"
چند دن قبل ایک نام نہاد صحافی سہیل وڑائچ نے ایک کالم لکھا جو کہ الطاف حسین کے عمران خان کے نام ایک فرضی خط پر مشتمل تھا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر الطاف حسین کو عمران خان کے نام کو خط لکھنا ہوتا تو وہ خود لکھتے۔ کسی اور کو کیا حق پہنچتا ہے کہ وہ الطاف حسین کی جانب سے ان کی اجازت کے بغیر خود اپنی سوچ کے مطابق باتیں لکھے؟ پاکستان میں شاید یہ صحافت کہلاتی ہو لیکن ایک مہذب معاشرے میں یہ ایک گری ہوئی حرکت سمجھی جاتی ہے۔ اگرچہ کافی لوگوں نے سہیل وڑائچ کی توجہ اس جانب مبذول کرائی اور تنقید بھی کی، لیکن نہ تو انہوں نے اپنے اس عمل پر معذرت کی اور نہ ہی کالم کو ڈیلیٹ کیا۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اپنے اس عمل سے مطمئن ہیں۔ جب ایسا ہے تو اس فرضی خط کی طرز پر، ان کا بھی ایک خط حاضر ہے جو یقینا ان کے اطمینان میں اضافے کا باعث بنے گا۔ "صلو وچ" بنام "سرجی" سلام سر جی! اب تو یقینا آپ خوش ہوں گے کہ میں نے آپ کا بھیجا ہوا ڈاکومنٹ جیسا ریسیو کیا، ویسے ہی "لندنی بھائی بنام اڈیالہ بھائی" کے عنوان سے میڈیا پر شیئر کر دیا۔ میں نے ہمیشہ آپ کا دیا ہوا ہر اسائنمنٹ وقت پر اور آ...