Posts

Showing posts from November, 2024

مظہر عباس, سیاسی روبوٹس اور ان کا ریموٹ کنٹرول

چند روز پہلے معروف کالم نگار جناب مظہر عباس صاحب نے روزنامہ جنگ اخبار میں ایک کالم تحریر کیا جس میں انہوں نے بظاہر تو حالیہ 26ویں آئینی ترمیم پر بات کی، لیکن ان کی اصل توجہ ایم کیو ایم پاکستان کی سیاسی و عسکری مجبوریوں پر مرکوز رہی۔ ان کے مطابق، ایم کیو ایم پاکستان نے اپنی مرضی سے نہیں بلکہ “کسی” کی ہدایت پر، ریموٹ کنٹرول کے تحت چلنے والے ایک روبوٹ کی طرح عمل کرتے ہوئے 26ویں آئینی ترمیم کی حمایت کی۔(ویسے یہ بات ایک کھلا راز ہے، جس کا علم پاکستان کی سیاست پر نظر رکھنے والے تقریباً ہر شخص کو ہوگ) ۔ ذرا تصور کریں کہ تقریباً 25 کروڑ آبادی رکھنے والے اور ایٹمی صلاحیت کے حامل ایک ملک کی پارلیمنٹ میں آئینی ترامیم، یعنی قانون سازی، ریموٹ کنٹرول کے اشارے پر کی جاتی ہے, ملکی منتخب سیاسی و مذہبی جماعتوں کو ایک روبوٹ کی طرح کنٹرول کیا جاتا ہے۔ اور ظاہر ہے یہ پہلی دفعہ ایسا نہیں ہوا۔ قائداعظم، لیاقت علی خان، اور خاص طور پر فاطمہ جناح کے انتقال کے بعد سے یہ سلسلہ مسلسل جاری ہے۔ عدلیہ بحالی تحریک کے دوران، تمام وکلاء اور جج صاحبان نے یہ کہہ کر تحریک چلائی کہ "عدلیہ 60 سال سے غلام بنی ہوئی ہے۔...

الطاف حسین - بس کا آخری مسافر

  آپ نے ایک کہانی تو سن رکھی ہوگی جس کے مطابق ایک بس مسافروں کو لے کر ایک شہر سے دوسرے شہر کی جانب سفر کر رہی ہوتی ہے۔ موسم انتہائی خراب ہوتا ہے، تیز بارش ہو رہی ہوتی ہے، بجلی نہ صرف کڑک رہی ہوتی ہے بلکہ کہیں کہیں گر بھی رہی ہوتی ہے۔ بس کا ڈرائیور خراب موسم دیکھ کر بس کو ایک جانب کھڑی کر دیتا ہے اور انتظار کرتا ہے کہ موسم ذرا بہتر ہو تو سفر دوبارہ شروع کرے۔ لیکن صاحب، بجلی تھی کہ نہ صرف کڑک رہی تھی بلکہ دھماکے کے ساتھ گر بھی رہی تھی، وہ بھی بس کے آس پاس، کبھی دائیں تو کبھی بائیں، کبھی آگے تو کبھی پیچھے۔ ایسا لگ رہا تھا کہ بجلی اپنے کسی شکار کو تلاش کر رہی ہو۔ اس صورتحال نے بس کے مسافروں کو خوفزدہ کر دیا تھا۔ یہ تمام صورتحال دیکھ کر بس میں ایک صاحب نے کہا، "مجھے لگتا ہے کہ ہم میں سے کوئی ایسا گنہگار شخص موجود ہے جس سے اللہ سخت ناراض ہے، جس کی بنا پر بجلی بار بار ہمارے قریب گر کر ہمیں کوئی اشارہ دے رہی ہے کہ ہم اسے اپنے سے دور کر دیں۔ اگر ہم ایسا نہیں کرتے تو اس شخص کے ساتھ ساتھ ہم بھی اس عذاب کا شکار ہو جائیں گے۔" "تو ایک شخص کی خاطر ہم سب کی جانیں خطرے میں کیوں ڈالیں؟...

"ہمیں منزل نہیں رہنما چاہیے"

ایم کیو ایم کے مخالفین، بشمول کچھ نام نہاد "دانشور"، ہمیشہ اس نعرے پر تنقید کرتے رہے ہیں۔ وہ اسے غیر منطقی قرار دیتے اور اس کا مذاق اڑاتے ہیں: ان کے مطابق "عوام اپنے رہنما کا انتخاب اور اس کے پیچھے اس لیے چلتے ہیں کہ وہ  رہنما چاہیے" انہیں منزل تک پہنچائے، مگر جب کوئی منزل ہی نہیں تو رہنما کی اہمیت کیا ہے؟" یہ ایک عام بات ہے کہ ہر معاشرے میں کئی شخصیات ایسی ہوتی ہیں جن کو لوگ اپنے سیاسی، مذہبی، مسلکی یا کسی اجتماعی مقصد کے حصول کے لیے اپنا رہنما سمجھتے ہیں اور ان کی پیروی کرتے ہیں، مگر ہر لیڈر میں انقلابی خصوصیات نہیں ہوتیں اور جن میں ہوتی ہیں وہ اپنے پیروکاروں کے لیے نہایت اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ اگر ہم پاکستان کی بات کریں تو کیا کوئی اور ایسی شخصیت نظر آتی ہے جس میں اتنی کشش ہو کہ ہزاروں، بلکہ لاکھوں لوگ ان کی ایک فون کال سننے کے لیے جمع ہو جائیں؟ اصولی طور پر پاکستان میں تو اصل سیاست ملک پر قابض طاقتور قوتوں کے خلاف ہونی چاہیے، ورنہ وہ سیاست نہیں بلکہ فکس یا فرینڈلی میچ ہی ہوگا، جو کہ کئی دہائیوں سے پہلے ہی جاری ہے۔         الطاف حسین کی سیاست شروع ...